محمد عمیر خالد(بیورو چیف) اسلام آباد سے
02 ستمبر 2024 ء.
اسلام آباد
پنجاب پولیس گذشتہ دو سالوں سے انتہائی بااثر ہونے کے باوجود بے انتہا وسائل پر قابض ہے مگر ان دو سالوں کے دوران پولیس کارکردگی پر سینکڑوں سوالیہ نشانات ہیں ،
حیران کن عمل تو یہ ہے کہ ٹارگٹ آپریشن توکامیابی حاصل کر لیتے ہیں مگر اچانک حملہ کہ حوالے سے ملک کی ایگزیکٹو پولیس کو کسی بھی طرح کی تربیت نہ ہے جس کے باعث درجنوں واقعات رونما ہوئے
حکومت پولیس کی تربیت اور انہیں جدید آلات سے آراستہ کرنے سمیت ٹیکنالوجی جیسے لالی پاپ تو دیتی ہے مگر انہیں عملی میدان میں اترنے کے حوالے سے کسی بھی طرح کی ملٹری تربیت کا عملی مظاہرہ ہرگز نہیں کرایا
پولیس حکومتوں کی مجبوری بنتی گئی اور اس مجبوری کا فائدہ افسران نے اٹھانا شروع کردیا وفاداری کے نام پر قومی خزانے سے اربوں روپے بٹورئے گئے مگر ان اربوں روپے کے بجٹ اور اضافی فنڈز کو اصل مقصد پر خرچ کرنے کی بجائے بند بانٹ کی گئی
“
سال “2002 سے اب تک گزشتہ تقریبا 25 سالوں میں پولیس نے کچے میں 52 چھوٹے اور بڑے آپریشن کیے۔ان آپریشن میں 34 پولیس اہلکار اور افسران شہید اور 43 زخمی ہوئے
ان آپریشن میں 69 ڈاکو ہلاک اور56 ڈاکو زخمی ہوئے جن میں کچھ زخمی گرفتار ہوئے اورکچھ فرارہوگئے ،کچے کے آپریشن میں ابتک 11 ارب 53 کروڑ کے اخراجات بھی آ چکے ہیں۔
پہلا آپریشن کچے لٹھانی گینگ کے خلاف کیا گیاجسکے بعد کچے کہ ڈاکوﺅں چھوٹو گینگ نے 2016 میں ایس ایچ او سمیت 22 افراد کواغواءکرلیاتھا اورپولیس انسپکٹر غوری سمیت 7 افراد کو شہید کر دیا تھا
،باقی اہلکاروں کو مذاکرات کے بعد رہا کروایا گیا تھاجس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں رینجر اورفوجی آپریشن کی تیاری پر چھوٹو گینگ نے حکومت سے مذاکرات کے بعد گرفتار ی دی تھی مگر بعدازان حکومتی عدم توجہی اور پولیس کی غفلت کے باعث کچے کے علاقے میں شر گینگ کوش گینگ ،لٹھانی گینگ،لنڈا گینگ،عمرانی گینگ اور دشتی گینگ متحرک ہوگئے
،واضح رہے کہ پولیس اہلکاروں پر حالیہ دہشتگردی بھی شر گینگ اور کوش گینگ نے کی ہے۔دوسری جانب سابق دور حکومت میں بھی تین ارب روپے کی کثیر رقم کو محض کچے کے ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن پر خرچ کرنے کیلئے قومی خزانہ خالی کیا گیا مگر ان ڈیڑھ سالوں میں تین ارب سے زائد کی رقم پولیس تربیت وسائل پر خرچ ایک سوالیہ نشان اور تحقیق طلب ہے
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ایک پیشہ ور پولیس آفیسر ہیں وہ بہتر طریقہ سے جانتے ہیں کہ ان کا جوان انتہائی خطرناک علاقہ جدید رائفل اور بلٹ پروف گاڑیوں کی بجائے عام ایس ایم جی رائفل اور کھٹارہ گاڑیوں میں بہتر پٹرولنگ کرنے کے ساتھ جدید ہتھیاروں سے لیس پیشہ ور ڈاکووں سے بخوبی لڑ سکتا ہے
پنجاب پولیس کو دیکھائے جائے تو ہمیشہ سپیشل ٹاسک پر ہی متحرک نظر آتی ہے عوام کے تحفظ کی کسی بھی طرح انہیں فکر نہیں آپریشن ونگ اپنی کمزوری دیکھا چکا ہے جبکہ انویسٹی گیشن ونگ تو قومی خزانے پر بوجھ نظر آرہا ہے سینکڑوں اشتہاری دندناتے پھر رہے ہیں ہزاروں ڈکیتی و چوری سمیت سنگین جرائم کے کیس زیر التوا ہیں بس کاغذوں کی ہیرا پھیری کرتے ہوئے حکومت کو سب اچھا کی رپورٹ دی جارہی اور چالان عدالتوں میں جمع کرانے کی بجائے اپنے کاغذات مرمت کر رہے ہیں
سی آئی اے جسے (او سی یو ) اورگنائز کرائم یونٹ کا نام دے کر ایک دہشت کی علامت بنا دیا گیا ہے جو جدید ٹیکنالوجی سے ان کیسوں پر توجہ دیتے ہیں جو بس اوسی یوکے افسران کی جیبیں گرم کریں ،ڈکیتوں اورقاتلوں کے خلاف بننے والا یونٹ لاہور کے تمام او سی یو افسران لین دین کے معاملات میں ملوث ہیں کیا یہ اس سپیشل یونٹ کا کام ہے کہ چیک ڈس آنر فراڈ اورجوا ءمیں ہار جیت کے پیسے واپس دلوائیں
آئی جی پنجاب اوسی یوکے حوالے سے تحقیقات کرائیں تومعلوم ہو گا کہ لاہور پولیس کا او سی یو ونگ کی توجہ کروڑوں روپے کے لین دین کہ معاملات میں دلچسپی رکھتے ہوئے انکے سنٹروں میں درجنوں افراد ایسے ملیں گے توکہ صرف لین دین فراڈ کیسوں میں ان کی حراست میں ہیں اورانہیں واقعات کے باعث پنجاب پولیس کیلئے عام شہریوں کے دلوں میں جگہ نہیں بن رہی
خبریں ڈیجیٹل میں میرا تجزیہ اور کچے کے علاقہ میں پنجاب پولیس پاکستان کی اربوں روپے بٹورنے کی ایک تحقیقاتی
رپورٹ :
محمد عمیر خالد (بیورو چیف) اسلام آباد سے